ایک نئے طرز کا علم
اس نظریہ کے مطابق طبیعیاتی مظاہر کو ریاضی مساوات کے مطیع بتانا ایک سادہ پن کوشش ہے جس سے مظاہر کے اہم چال چلن کی عکاسی تو ہو سکتی ہے، مگر مظاہر کی پوری تفصیل کو قید کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر سیارچوں کی سورج کے گرد بیضوی مدار میں گردش کیپلر (Kepler) کی مساوات سے بیان کی جاتی ہیں۔ اگر ان مساوات میں ہم سیارچوں کی آج کی جگہ ڈالیں تو دس سال بعد کی جگہ کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ مگر ان مساوات سے ہزار سال بعد کی جگہ کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں اور نہ یہ کہ اس مدت میں کوئی سیارچہ کسی سیارے سے ٹکرا جائے گا؟ اس کی ریاضی وجہ یہ ہے کہ یہ مساوات شواشی (chaotic) ہیں۔ یعنی آج کی جگہ کی پیمائش میں اگر ایک میٹر کا فرق ہو تو ہزار سال کی پیش گوئی جگہ میں شدید فرق پڑ سکتا ہے ۔[1] اب چونکہ آج کی جگہ کو بہت زیادہ اعداد کی درستی (precision) سے پیمائش کرنا ممکن نہیں، اس لیے ہزار سال بعد کا جواب معلوم نہیں ہو سکتا۔ یہ نظریہ متعدد لوگ پیش کر چکے ہیں۔ حال میں سٹیفن وولفرام نے اس نظریہ کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کے مطابق طبیعیاتی مظاہر کو مساوات کی بجائے ایک کمپیوٹر کاری (computation) سمجھنا چاہیے۔ یہ کمپیوٹر کاری کسی کمپوٹر پر نہیں مگر قدرتی طور پر اس مظاہر میں ہی ہو رہی ہے۔ اس نظریہ کی وجہ وولفرام کی خلیاتی خود متحرک (cellular automata) پر تحقیق ہے جس میں بہت سے خلیات میں کچھ سادہ قواعد کے تحت اگر ہر خلیہ میں شمارندگی ہو، تو خاصے عجیب نتائج حاصل ہو سکتے ہیں (تصویر ا تا 5)۔ مثال کے طور پر تصویر 1 میں یک العباد (one-dimensional) خلیاتی خود متحرک دکھایا گیا ہے (افقی جانب یا دائیں بائیں سطر)۔ ہر خلیہ کی حالت "سیاہ" یا "سفید" ہو سکتی ہے۔ عمودی جانب (اوپر سے نیچے) اس کا ارتقا دکھایا ہے۔ ہر خلیہ کی اگلی سطر میں حالت اس کی اپنی موجودہ حالت اور اس کے دائیں اور بائیں ہمسایہ خلیات کی موجودہ حالت پر منحصر شمار کی جاتی ہے۔ ان تین خلیات کی موجودہ حالت کی 8 پرموٹیشن (permutation) ممکن ہیں اور ہر پرموٹیشن کے لیے اگلی حالت تصویر کے اوپر پٹی میں دکھائی گئی ہے۔ یہ اس تصویر کے لیے ارتقا کا قاعدہ ہے۔ دیکھو کہ اس قاعدے کے تحت یہ خلیاتی خود متحرک ایک میعادی وضع (periodic pattern) اختیار کر لیتا ہے۔
اس یک العبادی خلیاتی خود متحرک کے لیے کل 256 مختلف قواعد ممکن ہیں ۔[2] کچھ قواعد کے تحت کی تصاویر نیچے دی گئی ہیں۔ ان تصاویر میں کچھ اسی طرح پچیدہ ہو سکتی ہیں جسے تیز ہوا میں درخت کے پتوں کا لہرانا یا سمندر کی لہروں کا منظر۔ اس تحقیق کے مطابق کمپیوٹر کاری کو چار طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (یعنی خلیاتی فضا ( cellular space) پر اگر کچھ خاص قواعد کے تحت شمارنگی شروع کی جائے، تو چلنے کے بہت دیر بعد یہ نتائج نکل سکتے ہیں (یعنی تصویر بن سکتی ہے))۔
یہاں "ناقابل پیشن گوئی" سے مراد یہ ہے کہ شمارندگی کا کوئی ایسا طریقہ ممکن نہیں جو اس شمارندگی طریقے کی نسبت جلد یہ نتائج فراہم کرے۔ یعنی آپ کو نتائج کے لیے اس نکتہ تک شمارندگی کو چلانا ہو گا، کوئی ایسا کلیہ نہیں جس میں اعداد ڈال کر آپ یہ نتیجہ جلد حاصل کر سکتے ہوں۔ نیچے کی تصویر طبقہ 1 کی کمپیوٹر کاری ہے۔ یہاں یہ ایک ساکن حالت کو پہنچ جاتی ہے۔
نیچے کی تصویر طبقہ 2 کی کمپیوٹر کاری ہے۔ یہ ایک میعادی وضع اختیار کرتی ہے۔
نیچے کی تصویر طبقہ 3 کی کمپیوٹر کاری ہے۔ اس تصویر میں دائیں طرف ایک بے ترتیب وضع نظر آ رہی ہے۔ یہ زیادہ دلچسپ نہیں۔
نیچے کی تصویر طبقہ 4 کی کمپیوٹر کاری ہے۔ یہاں کمپیوٹر کاری gnarly ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ اس طرح کی مثالیں قدرتی مظاہر میں ملتی ہیں۔ مثلاً سیگرٹ سے اٹھتا ہوا دھواں بے ترتیب نہیں ہوتا، مگر ناقابل پیشن گوئ ہوتا ہے، جسے gnarly کہا جا سکتا ہے۔
"نئ قسم کی سائنس" نظریہ کے مطابق قدرتی (طبیعیاتی) مظاہر اصل میں طبقہ چار کی شمارندگی ہیں۔ مثلا اگر پتے ہوا میں لہرا رہے ہیں تو یہ ایک طبقہ چار کی متوازی شمارنگی (parallel computing) ادا کر رہے ہیں۔ اب یہ شمارنگی کن قواعد کے تحت ہو رہی ہے، یہ ڈھونڈنا ایک علاحدہ مسئلہ ہے۔ (یاد رہے کہ یہ شمارندگی کسی کمپوٹر پر نہیں، بلکہ قدرت میں ہی ہو رہی ہے۔ ) کمپیوٹر کاری کا ناقابل پیشن گوئ ہونے کا قانوناس نظریہ کے تحت قدرت میں ہونے والی اکثر پچیدہ کمپیوٹر کاریاں "ناقابل پیشن گوئ" ہیں۔ اس نظریہ سے شاید یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہو گا کہ کائنات کی پوری تفصیل سے پیش گوئی کسی بھی ایسی شمارنگی سے ممکن نہیں، جو کائنات سے چھوٹی ہو۔ یعنی کائنات جیسی تفصیل کے لیے سب سے چھوٹا کمپوٹر خود کائنات ہی ہے۔
حوالہ جات
|